Friday, December 29, 2023

حماس کا صفایا یا گولانی بریگیڈ کا صفایا؟

 

حماس کا صفایا یا گولانی بریگیڈ کا صفایا؟

 

خورشید عالم داؤد قاسمی

 

سات اکتوبر کے حملے کے بعد، اسرائیل کی قابض فوج نے غزہ کی پٹی پر فضائی حملہ شروع کیا اور پھر چند دنوں بعد، اس نے زمینی جنگ کا آغاز کیا۔ جنگ کے آغاز میں، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اس کا مقصد "حماس کا صفایا" اور "یرغمال بنائے گئے شہریوں کی رہائی" ہے۔ مگر تقریبا ڈھائی مہینے سے جاری اس وحشیانہ کاروائی میں صہیونی قابض فوج اپنے مقصد کے حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ وہ غزہ کی پٹی کی اونچی اونچی عمارتوں، مہاجرین کے خیموں، اسپتالوں، اسکولوں، یونیورسیٹیوں، چرچوں کو زمین دوز کرنے میں کامیاب رہی۔ اپنی سفاکیت اور درندگی کا ثبوت دیتے ہوئے اس نے بم، میزائل، مشین گن، آتشی اسلحے اور قسم قسم کے مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرکے، 23/ دسمبر 2023 تک بیس ہزار 258 بے گناہ شہریوں کو قتل؛ ترپن ہزار 688 /لوگوں کو زخمی، دو تہائی شمالی غزہ کی عمارتوں کو زمین دوز اور غزہ کے مکینوں کو بے گھر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس جنگ میں جو کچھ ہو رہا ہے، سارے فلسطینی اس کے عادی ہیں ؛ کیوں کہ ایسا ان کے ساتھ ماضی میں بار بار ہوچکا ہے؛ مگرصہیورنی ریاست اس جنگ میں جو نقصان اٹھا رہی ہے، وہ اس کے لیے تکلیف کا باعث ہے؛ کیوں کہ وہ اس کی عادی نہیں ہے۔

 

جب سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے، اس دن سے بہت سے ممالک میں عام لوگ اسرائیلی فوج کی درندگی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ متعدد ممالک میں تو اتوار کا  دن اسرائیلی حکومت کے خلاف مظاہرے کا معمول ہی بن گیا ہے۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی بدولت، عام لوگ بھی اسرائیلی فوج کی درندگی سے واقف ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں مظاہرین کا سیدھا نعرہ ہے: "نوٹ مائی وار" یعنی یہ ہماری جنگ نہیں ہے، پھر ہم کیوں اسرائیل کے ساتھ اس جنگ میں شامل ہوکر، اپنا نقصان کریں؟ بہت سے لوگ نیتن یاہو کے غیر ذمہ دارانہ فیصلے کی وجہہ سے صہیونی ریاست سے نفرت کرنے لگے ہیں، ان میں یہودی بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل جیسی ریاست کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ صہیونی ریاست میں بھی عام لوگ اس طرح سے ڈر وخوف کی زندگی جینا نہیں چاہتے؛ اس لیے وہ بھی اپنی حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے اہل خانہ "تل ابیب" میں مظاہرے کرکے اپنے غم وغصہ کا نیتن یاہو کے خلاف اظہار کر رہے ہیں۔ اسرائیلی شہریوں کی ایک بڑی تعداد نیتن یاہو سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ مستعفی ہوجائے۔ ان شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھوں نے سرکار کو جنگ کے لیے منتخب نہیں کیا ہے؛ بلکہ وہ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ بہت سے اسرائیلی شہری "دو ریاستی حل کے نظریہ" کی کھلے طور پر تائید کر رہے ہیں۔ اس جنگ کے پہلے دن سے اسرائیلی شہریوں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ جنگ کے آغاز سے اب تک تقریبا تین لاکھ دوہری شہریت کے حامل اسرائیلی شہری اسرائیل چھوڑ کر، ان ممالک میں جاچکے ہیں جہاں کی ان کو دوہری شہریت حاصل ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی شہریوں کی ایک بڑی تعداد دوہری شہریت رکھتی ہے۔ غزہ میں جو نقصان ہوا وہ ہوا، لیکن یہ جنگ مجموعی طور فلسطین کے حق جارہی ہے۔

 

فرانس جو ہمیشہ سے صہیونی ریاست کا معین ومددگار رہا ہے اور اسرائیل پر حملے کے بعد، اس کا صدر فورا "تل ابیب" پہنج کر، اسرائیل کی حمایت کی تھی، اب صہیونی قابض فوج کی غزہ میں وحشیانہ کاروائی دیکھ کر، اس کے وزیر یہ کہہ رہے ہیں کہ دوہری شہریت کے حامل فرانسیسی فوجی جو غزہ میں جنگ میں شامل ہیں اور جنگی جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں، ان کی مذمت کی جانی چاہیے۔ صہیونی فوج جس طرح غزہ کے شہریوں پر بلا امتیاز بمباری کر رہی ہے کہ اب بائیڈن انتظامیہ کے لیے اسرائیل کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا ہے؛ چناں چہ صہیونی بائیڈن نے خود اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اسرائیل بلاامتیاز بمباری کی وجہہ سے عالمی حمایت کھو رہا ہے۔ یہ فلسطین کے لیے اچھی خبر ہے۔

 

ساؤتھ افریقہ ایک زمانے سے صہیونی ریاست اسرائیل کا ناقد رہا ہے۔ اس ملک نے ہر پلیٹ فارم پر اسرائیل کے ظلم و جبر اور اس کی وحشیانہ کاروائی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ساؤتھ افریقہ کی وزارت خارجہ نے حالیہ جنگ کے حوالے سے 18/ دسمبر 2023 کو یہ بیان جاری کیا کہ وزارت خارجہ کو اس خبر پر "شدید تشویش" ہے کہ جنوبی افریقہ کے کچھ شہری غزہ میں لڑنے کے لیے اسرائیلی دفاعی فوج میں شامل ہوئے ہیں یا ایسا کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اگر کوئی ساؤتھ افریقہ کا شہری قابض صہیونی فوج کے ساتھ مل کر، غزہ کی جنگ میں حصہ لیتا ہے؛ تو ساؤتھ افریقہ میں اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائےگی، اس پر مقدمہ چلایا جائے گا اور اسے سخت سزا دی جائے گی؛ کیوں کہ جنوبی افریقہ کے صدر سیرل راماپھوسا نے ایک بار پھر اس جنگ کو "نسل کشی" قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

 

اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس جنگ کا صہیونی ریاست کی اقتصادی حالت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ اس نے تقریبا تین لاکھ ساٹھ ہزار اپنے ریزرو فوجیوں کو غزہ کے ارد گرد جمع کردیا ہے، جو مختلف پیشے سے جڑے لوگ ہیں۔ اب وہ بیٹھے ہوئے ہیں اور جہاں وہ کام کرتے ہیں، وہاں اپنی ذمے داریاں نبھانے سے قاصر ہیں؛ لہذا ان کی بھی آمدنی رک گئی ہے اور حکومت کو ان کا خرچہ بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اسرائیل کے اقتصادیات پر برا اثر پڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ "حزب اللہ" شمالی اسرائیل میں تقریبا سات کلو میٹر تک اپنا میزائیل برسا رہا ہے۔ اس کے خوف سے، لبنان کی سرحد سے قریب شمالی اسرائیل کے تقریبا ایک لاکھ شہری اپنے گھروں کو چھوڑ کر، خیموں میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ جہاں ایک طرف ان کی معاشی سرگرمیاں ٹھپ پڑگئی ہیں، وہیں دوسری طرف ان کے کھانے پینے کا خرچ حکومت کے ذمے ہے۔ حماس کی طرف سے ہر روز اسرائیل کے شہروں پر میزائل پھینکا جا رہا ہے۔ گرچہ وہ اپنے ہدف پر پہنچے یا نہ پہنچے؛ لیکن اس کی وجہہ سے لوگ باہر نکلنا چھوڑ رہے ہیں، اس کا اثر بھی اقتصادیات پر پڑ رہا ہے۔ ان دنوں اسرائیل میں سیاح بالکل نہیں پہنچ رہے ہیں، اس سے بھی وہاں کی اقتصادیات متاثر ہو رہی ہے۔ دوسری اقتصادی سرگرمیاں بھی اسرائیل میں تقریبا ٹھپ پڑچکی ہیں۔

 

قابض فوج نے 15/ دسمبر 2023 کو غزہ میں اپنے تین ایسے لوگوں کا قتل کردیا جنھیں حماس نے یرغمال بنایا تھا۔ ہوا یہ کہ وہ لوگ صہیونی فوج کو دیکھ کر، ان کی طرف بڑھے؛ مگر صہیونی فوج نے ان پر فائرنگ شروع کردی اور وہ سب وہیں قتل کردیے گئے۔ اب تک فلسطینی یہ کہہ رہے تھے کہ قابض فوج مزاحمت کاروں سے مقابلہ کے بجائے بالقصد شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے، تو صہیونی ذہنیت کے لوگوں کو اس پر یقین نہیں ہو رہا تھا؛ مگر اب قابض فوج کا اپنے یرغمال شہریوں کا قتل کرنا، اس بات کا بین ثبوت ہے کہ جس فلسطینی شہری پر بھی اس کی نظر پڑتی، اس پر وہ گولی چلا دیتی ہے۔ اس سے صہیونی ریاست اور قابض فوج کی درندگی کھل کر عام لوگوں کے سامنے آرہی ہے اور عوام اس کی درندگی سے واقف ہو رہے ہیں۔

 

مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری بازو نے جب سات اکتوبر کو حملہ کیا تھا؛ تو صہیونی ریاست اسرائیل اور اس کی قابض فوج ایک دن کے لیے لرزی تھی؛ لیکن زمینی جنگ کے شروع کرنے کے بعد سے، ان کو جس مقابلے کا سامنا ہے کہ قابض فوج ہر روز لرز رہی ہے۔ جس طرح "قسام بریگیڈ" کے مزاحمت کار ان سے مقابلہ کر رہے ہیں کہ اس کا ان کو گمان بھی نہیں رہا ہوگا۔ زمینی جنگ شروع ہونے کے پہلے دن سے ہی ہر روز دسیوں فوجی اور افسران مارے جارہے ہیں۔ فوج کی ایک بڑی تعداد زخمی ہوکر، اسپتال میں زیر علاج ہے۔ ان کے قیمتی ٹینک تباہ وبرباد کیے جارہے ہیں۔ تباہ شدہ ٹینک کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ کچھ ایسے بھی ٹینک ہیں، مثلا: "میر کاوا"، جس کی قیمت 35 لاکھ ڈالر ہے۔ قابض فوج کا غزہ میں گھسنا جتنا مشکل تھا، اس سے کہیں زیادہ مشکل ان کے لیے اب وہاں سے نکلنا ہے۔ صہیونی فضائی فوج نے بےدردی سے غزہ کی عمارتوں کو زمین دوز کردیا، اب ان کی بری فوج کو حماس کے مزاحمت کار انھیں عمارتوں کے ملبے سے چھپ کر نشانہ بناتے ہیں اور ان کے ٹینک تباہ کرتے ہیں۔

 

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جنگ کے آغاز میں کہا تھا کہ اس کا مقصد حماس کا صفایا اور یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کو حماس کی قید سے آزاد کرانا ہے۔ اسرائیل اپنے مقاصد کے حصول میں اب تک ناکام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نیتن یاہو یرغمال شہریوں کی رہائی میں ناکام رہے؛ تو اپنے نمائندوں کو قطر کی ثالثی میں، یرغمالوں کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھیجا۔ پھر معاہدے کے مطابق عارضی طور پر تقریبا سات دنوں کے لیے جنگ بند رہی، غزہ میں امدادی سامانوں کے جانے کی اجازت دینی پڑی، مزید یہ کہ فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرنا پڑا اور ہر تین فلسطینی قیدیوں کے بدلے ایک یرغمال اسرائیلی شہری کو رہا کیا گیا۔ پھر دوبارہ جنگ شروع ہوگئی۔ اب بھی اسرائیل غزہ میں زمینی آپریشن کر رہا ہے، مگر قابض فوج اب تک باقی یرغمال شہریوں کو آزاد نہیں کراسکی۔ یہ اس کی ناکامی ہے۔

 

صہیونی ریاست اسرائیل کی یہ سوچ تھی کہ ہفتہ دس دن میں غزہ پر قبضہ کرکے حماس کا صفایا کردیں گے، مگر ڈھائی مہینے کی طویل مدت میں بھی ایسا تو نہیں ہوسکا اور نہ اس طرح کی کوئی امید لگ رہی ہے؛ بلکہ اسے حماس کی طرف سے ایسے مقابلے کا سامنا ہے، جس کے بارے میں اسرائیلی قابض فوج نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے، لیکن ابھی بھی غزہ ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔قسام بریگیڈ کے اسنائپرز ان عمارتوں کے ملبے کو "اسنائپرز نیسٹ" کے طور پر استعمال کرکے، حملے کر رہے ہیں، جن عمارتوں کو اسرائیلی فضائی فوج نے زمین دوز کیا ہے۔ صہیونی فوج کےسینیر آفیسرز اتنی تعداد میں مارے جا رہے ہیں کہ جونیر آفیسرز کو میدان جنگ میں ترقی دے کر، اعلی عہدے پر فائز کیا جارہا ہے۔ نہ ان کو تجربہ اور نہ ہی غزہ کی گلیوں سے واقفیت؛ اس لیے ایسا لگ رہا ہے کہ آئندہ دنوں میں اسرائیل کو مزید جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 

گولانی بریگیڈ کو اسرئیلی فوج  کا سب سے بہترین تربیت یافتہ حصہ مانا جاتا ہے۔ جب غزہ کے خلاف زمینی جنگ شروع ہوئی؛ تو اس کی قیادت گولانی بریگیڈ ہی کر رہی تھی۔ اس بریگیڈ کو بروز: جمعرات، 22/ دسمبر 2023 کی شام کو غزہ کی پٹی سے واپس بلا لیا گیا ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ گولانی بریگیڈ نے اپنے متعددآفیسرز کھوچکی ہے۔ اب مزید نقصان اٹھانا نہیں چاہتی۔ گولانی بریگیڈ کے سابق کمانڈر موشے کاپلنسکی نےاسرائیل چینل 12 کے ساتھ انٹرویو میں یہ اعتراف کیا کہ " آپریشن طوفان الاقصیٰ اور اس کے نتیجے میں غزہ میں زمینی جنگ کے آغاز کے بعد سے بریگیڈ اپنی لڑاکا افواج کا ایک چوتھائی حصہ کھو چکی ہے۔ گولانی بریگیڈ کو بھاری جانی نقصان پہنچا ہے۔ اس بریگیڈ کے کم از کم 82 فوجی اور افسران مارے جاچکے ہیں۔گولانی بریگیڈ نے پہلے دن ہی جنگ کا آغاز کیا تھا، اس کے 72 فوجی مارے گئے تھے۔ بریگیڈ کی تیرہویں بٹالین نے سات اکتوبر کو لڑائیوں کے دوران 41 سپاہیوں اور افسروں کو کھو دیا۔" اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ حماس کا صفایا کریں گے۔ اسرائیل نے اب تک تقریبا تین ہزار قسام بریگیڈ کے مزاحمت کاروں کو مارنے کا دعوی کیا ہے؛ جب کہ ان کے پاس تقریبا چالیس ہزار مزاحمت کار ہیں اور وہ اب تک میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صہیونی ریاست کی قابض فوج حماس کا صفایا تو نہیں کرسکی؛ مگر "قسام بریگیڈ" نے "گولانی بریگيڈ" کا صفایا کردیا۔ ●●●●

حماس کا صفایا یا گولانی بریگیڈ کا صفایا؟







 

Sunday, December 10, 2023

اذان اور مؤذن کی فضیلت

 

اذان اور مؤذن کی فضیلت

 

خورشید عالم داؤد قاسمی

مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

 

اذان کے لیے نیک آدمی کا انتخاب:

اسلام میں اذان اور مؤذن کی بڑی فضیلت و اہمیت ہے۔ ہماری مساجد میں ایسے شخص کو امام و مؤذن بنانا چاہیے جو نیک و صالح ہو اور اذان وامامت کے مسائل سے بخوبی واقف ہو۔ مؤذن ایسا آدمی ہو جو اذان کے  کلمات کو، درست مخارج کے ساتھ، ادا  کرنا جانتا ہو۔ مگر مؤذن کے حوالے سے مسجد کمیٹی کے اراکین عام طور پر بالکل بے حس ہوتے ہیں۔ مسجد کمیٹی کسی بھی آدمی  کو جو کم سے کم تنخواہ میں، اذان کے ساتھ ساتھ مسجد کی صفائی وغیرہ کی ذمہ داری قبول کرلے، بطور مؤذن تقرر کرلیتی ہے۔اذان دینا اتنا افضل اور اہم کام ہے کہ اس کے لیے ہمیں اچھے اور نیک آدمی کا انتخاب کرنا چاہیے۔ حدیث میں جو رہنمائی ملتی ہے وہ یہی ہے کہ اذان کے لیے نیک اور صالح آدمی کو منتخب کرنا چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «لِيُؤَذِّنْ لَكُمْ خِيَارُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ قُرَّاؤُكُمْ». (سنن ابی داؤد: 590) ترجمہ: "تمھارے لیے وہ آدمی اذان دے جو تم میں سے بہتر (نیک و صالح) ہواور تمھارے لیے وہ آدمی نماز پڑھائے جو تم میں سب سے اچھا قرآن پڑھتا ہو"۔

 

اذان سے شیطان کا پیٹھ پھیر کر بھاگنا:

اذان فضیلت و اہمیت والا عمل ہے۔ شیطان کو اذان سے بہت ڈر لگتا ہے؛ اس لیے شیطان جوں ہی اذان کی آواز سنتا ہے، وہ خوف سے اتنی دور بھاگ جاتا ہے کہ اذان کی آواز نہ سننی پڑے۔ اس کے بھاگنے کی محدثین نے ایک وجہ یہ بھی لکھی ہےجو بھی اذان کی آواز سنے گا، اسے قیامت کے دن، مؤذن کے حق میں گواہی دینی پڑے گی۔ شیطان گواہی نہیں دینا چاہتا، اس لیے وہ اذان شروع ہوتے ہی اتنی دور بھاگ جاتا ہے کہ وہ اذان نہ سن سکے۔  اس سے ہمیں ایک اہم سبق ملتا ہے کہ ہم جوں ہی اذان کی آواز سنیں، سارے دنیوی کام چھوڑ کر، مسجد کا رخ کریں۔

 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِذَا نُودِيَ لِلصَّلاَةِ أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ، وَلَهُ ضُرَاطٌ، حَتَّى لاَ يَسْمَعَ التَّأْذِينَ، فَإِذَا قَضَى النِّدَاءَ أَقْبَلَ، حَتَّى إِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلاَةِ أَدْبَرَ، حَتَّى إِذَا قَضَى التَّثْوِيبَ أَقْبَلَ، حَتَّى يَخْطِرَ بَيْنَ المَرْءِ وَنَفْسِهِ، يَقُولُ: اذْكُرْ كَذَا، اذْكُرْ كَذَا، لِمَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ حَتَّى يَظَلَّ الرَّجُلُ لاَ يَدْرِي كَمْ صَلَّى".  (صحیح بخاری: 608) ترجمہ: "جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے،تو شیطان پیٹھ پھیر کر ریح خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے، تا آں کہ وہ اذان کی آواز نہیں سنتا۔پھر جب اذان ختم ہوجاتی ہے، تو شیطان واپس آجاتا ہے۔ پھر جب تکبیر کہی جاتی ہے؛ تو پھر وہ پیٹھ پھیر کو بھاگتا ہے، پھر جب اقامت پوری ہوجاتی ہے، تو وہ پھر واپس آجاتا ہے؛  یہاں تک کہ (نمازی) آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔وہ  کہتا ہے:  اس بات کو یاد کر، اس بات کو یاد کر، جو بات اس  (نمازی)کو یاد بھی نہیں تھی، تا آں کہ اس (نمازی)آدمی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ نماز کی کتنی رکعتیں اس نے ادا کی۔

 

اذان پکارنے کے لیے لڑائی:

اذان میں اللہ تعالی وہ اجر عظیم رکھا ہے کہ اگر لوگوں کو اذان کے اجر وثواب کا پتہ چل جائے؛ تو وہ اذان دینے کے لیے آپس میں لڑائی کرنے لگیں گے اور تلوار تک نکال لیں گے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا لَهُمْ فِي التَّأْذِينِ، لَتَضَارَبُوا عَلَيْهِ بِالسُّيُوفِ». (مسند احمد: 11241) ترجمہ: "اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اذان میں ان کے لیے کیا ثواب ہے؛ تو وہ اس حوالے سے تلواروں کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار ہوجائیں گے"۔

 

اذان سے جان ومال محفوظ:

اسلام میں اذان کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر کسی گاؤں یا شہر سے اذان کی آواز آتی ہے؛ تو اذان کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کا خون ، ان کی عزت و آبرواور ان کے مال محفوظ ہوجاتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا غَزَا بِنَا قَوْمًا، لَمْ يَكُنْ يَغْزُو بِنَا حَتَّى يُصْبِحَ وَيَنْظُرَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا كَفَّ عَنْهُمْ، وَإِنْ لَمْ يَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ عَلَيْهِمْ". (صحیح بخاری: 610) ترجمہ: "جب نبی اکرمؐ ہمیں ساتھ لے کر کسی  قوم اور قبیلہ کے خلاف جنگ کے لیے جاتے، آپؐ حملہ نہیں کرتے تھے، تا آں کہ صبح ہوجاتی؛ جب کہ آپؐ انتظار کرتے ہوتے تھے۔ اگر آپؐ اذان کی آواز سنتے؛ تو اس قوم پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ اگر آپؐ اذان کی آواز نہیں سنتے؛ تو اس قوم پر حملہ کرتے تھے۔

ایک حدیث میں ہے کہ جہاں صبح میں اذان پکاری جاتی ہے، وہاں کے لوگ شام تک اللہ پاک کی پناہ میں رہتے ہیں۔ پھر جب شام میں اذان کہی جاتی ہے؛ تو وہاں کے لوگ صبح تک اللہ کی پناہ میں رہتے ہیں۔ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «أَيُّمَا قَوْمٍ نُودِيَ فِيهِمْ بِالْأَذَانِ صَبَاحًا إِلَّا كَانُوا فِي أَمَانِ اللهِ حَتَّى يُمْسُوا، وَأَيُّمَا قَوْمٍ نُودِيَ عَلَيْهِمْ بِالْأَذَانِ مَسَاءً إِلَّا كَانُوا فِي أَمَانِ اللهِ حَتَّى يُصْبِحُوا». (المعجم الكبير للطبراني: 498) ترجمہ: "جب کسی قوم (کی بستی یا شہر) میں صبح کے وقت اذان پکاری جائے؛ تو وہ قوم شام تک اللہ کے امان میں رہتی ہے۔ اور جب کسی قوم (کی بستی یا شہر) میں شام کے وقت اذان پکاری جائے؛ تو وہ قوم صبح تک اللہ کے امان میں رہتی ہے"۔

 

مؤذن کے لیے جنّ و انس کی گواہی اور استغفار:

جو شخص کسی مسجد کا مؤذن ہے اور اذان دیتا ہے، بظاہر سماج میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔اسلام کی نظر میں، اس کی بڑی فضیلت اور حیثیت ہے۔ قیامت کے دن مؤذن  بہت ہی زیادہ اجرو ثواب کا مستحق ہوگا۔ ایک حدیث کے مطابق، اگر ایک چرواہا جنگل میں اذان دیتا ہے،تو جس جگہ تک اس چرواہے  کی اذان کی آواز جائےگی، اس جگہ تک جو بھی مخلوق اس اذان کو سنے گی، وہ قیامت کے دن اس چرواہے مؤذن کے حق میں گواہی دے گی۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  نے عبد اللہ سے کہا:

إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الغَنَمَ وَالبَادِيَةَ، فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ، أَوْ بَادِيَتِكَ، فَأَذَّنْتَ بِالصَّلاَةِ فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، فَإِنَّهُ: «لاَ يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ المُؤَذِّنِ، جِنٌّ وَلاَ إِنْسٌ وَلاَ شَيْءٌ، إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ القِيَامَةِ». (صحیح بخاری: 609) ترجمہ: "میں دیکھتا ہوں کہ آپ بکری اور بیابان کو پسند کرتے ہیں؛ لہذا جب آپ اپنی بکری کے ساتھ ہوں یا بیابان میں ہوں، نماز کے لیے اذان دے رہے ہوں؛ تو بلند آواز سے اذان دیں؛ کیوں کہ جہاں تک مؤذن کی آواز جاتی ہے، وہاں تک جن وانس اور جو بھی چیز اسے سنتی ہے، قیامت کے دن مؤذن کے حق میں گواہی دے گی"۔

ایک حدیث میں ہے کہ اگر مؤذن کا گناہ اتنا زیادہ ہو کہ جہاں تک اس کی آواز پہنچتی ہے، وہاں تک پھیل جائے، پھر بھی اس کے گناہ  معاف کردیے جائیں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: «الْمُؤَذِّنُ يُغْفَرُ لَهُ، مَدَى صَوْتِهِ، وَيَسْتَغْفِرُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسٍ». (سنن ابن ماجہ: 724) ترجمہ: "مؤذن کی جہاں تک آواز پہنچتی ہے، وہاں تک اس کی مغفرت کی جاتی ہے اور اس کے لیے ہر خشک و تر چیز مغفرت طلب کرتی ہے"۔

 

قیامت کے دن مؤذن کی گردن:

ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن مؤذن کی گردن لمبی ہوگی۔ محدثین نے اس حدیث کے بہت سے مطالب بیان کیے ہیں۔ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مؤذن قیامت کے دن سب سے ممتاز ہوگا۔ قیامت کے دن دوسرے لوگ پسینہ میں ڈوب جائيں گے؛ جب کہ مؤذنوں کی گردنیں لمبی ہوں گی، وہ پسینہ میں غرق نہ ہوں گی اور وہ آخرت کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔ ایک مطلب یہ بھی ہے  کہ مؤذن کے اعمال قیامت کے دن، دوسرے لوگوں کے اعمال سے زیادہ اچھے ہوں گے۔حضرت سیدنامعاویہ –رضی اللہ عنہ– فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ– صلی اللہ علیہ وسلم– کو کہتے ہوئے سنا: «الْمُؤَذِّنُونَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ». (صحیح مسلم: 387) ترجمہ: "اذان دینے والوں کی گردنیں قیامت کے دن سب سے زیادہ لمبی ہوں گی"۔

 

سیّدنا عمر فاروقؓ کی تمنا:

کچھ فقہاء کرام کا کہنا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کرامؓ نے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے باعث، وقت میں تنگی کی وجہ سے اذان دینے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ اگر ان کے پاس انتظامی ذمہ داری نہیں ہوتی؛ تو وہ حضرات بھی اذان دینے کا کام کرتے۔ سیدنا عمرفاروق –رضی اللہ عنہ– کی تمنا تھی کہ وہ  اذان  کی ذمے داری اپنے سر لیں۔ وہ خلیفہ تھے۔ ان پر خلافت کا بوجھ تھا۔ انتظامی امور میں منہمک تھے؛ اس لیے انھوں اذان کی ذمہ داری نہیں لی۔ آپؓ نے فرمایا: "لولا الخلافة لأَذّنت"، اگر خلافت (کی ذمہ داری) نہ ہوتی؛ تو میں اذان دیتا"۔ (المغنی لابن قدامہ: 1/293)

 

اذان کے لیے قرعہ اندازی:

اذان کی اتنی فضیلت و اہمیت ہے کہ فقہا نے لکھا ہے کہ اگر اذان دینے کےلیے کئی آدمی خواہشمند ہوں؛ تومؤذن کا انتخاب قرعہ اندازی سےکیا جائے گا۔ آج ہمارے معاشرے میں، کم علمی کی وجہ سے مؤذن کی کوئی اہمیت نہیں ہے؛ جب کہ اسلام کی نظر میں، ان کا مقام بہت بلند اور اونچا ہے۔ پانچ وقت پابندی سے اذان پکارنے کے باوجود، ان کی تن خواہ بہت کم ہوتی۔ ہمیں اس حوالے سے سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سیدنا عمر –رضی اللہ عنہ– نے "جنگ قاسیہ" میں، حضرت سعد بن ابی وقاص –رضی اللہ عنہ– کو امیر بنایا۔حضرت سعدؓ امامت کی ذمہ داری خود انجام دیتے تھے۔ جنگ کے دوران مؤذن شہید ہوگئے۔ اب نیا مؤذن مقرر کرنا تھا۔ بہت سے صحابۂ کرامؓ اذان کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہوگئے۔ یہ واضح رہے کہ اس وقت مؤذن کو کوئی تنخواہ نہیں دی جاتی تھی۔ بالآخر آپؓ نے بحیثیت امیر قرعہ اندازی سے مؤذن کا انتخاب کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں: "يُذْكَرُ: أَنَّ أَقْوَامًا اخْتَلَفُوا فِي الأَذَانِ فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ سَعْدٌ". (صحیح بخاری، كتاب الأذان، باب الاستہام في الأذان) ترجمہ: "بیان کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اذان کے حوالے سے اختلاف کیا (کہ کون اذان دے گا)؛ تو سعدؓ نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی"۔

 

لوگ مؤذن کی فضیلت اور ان کے مقام و مرتبہ سے ناواقف ہے۔ اگر لوگ یہ جان لیں کہ مؤذن کی کیا حیثیت ہے؛ تو وہ آپس میں مؤذن کے انتخاب کے لیے قرعہ اندازی کے لیے مجبور ہوں گے۔ پھر قرعہ اندازی کے بعد مؤذن کا انتخاب عمل میں آئے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  «لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لاَسْتَهَمُوا».حیح البخاري: 615) ترجمہ:  "اگر لوگ جان لیں جو ثواب اذان دینے اور پہلی صف میں (نماز پڑھنے میں) ہے، پھر اس کے لیے قرعہ اندازی کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہ ہو؛ تو وہ لوگ قرعہ اندازی کریں گے"۔

 

جہنم کی آگ سے نجات:

پابندی سے سات سال تک اذان دینے والوں کے لیے اللہ تعالی جہنم کی آگ سے چھٹکارے کا پروانہ لکھ دیتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «مَنْ أَذَّنَ مُحْتَسِبًا سَبْعَ سِنِينَ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بَرَاءَةً مِنَ النَّارِ». (سنن ابن ماجہ: 727) ترجمہ: "جس شخص نے سات سالوں تک ثواب کی امید سے اذان دی؛ تو اللہ تعالی اس کے لیے (جہنم کی) آگ سے نجات لکھ دیتے ہیں"۔

 

ایک روایت میں ہے کہ جو شخص بارہ سالوں تک پابندی سے اذان پکارے گا، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمايا: «مَنْ أَذَّنَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، وَكُتِبَ لَهُ بِتَأْذِينِهِ فِي كُلِّ يَوْمٍ سِتُّونَ حَسَنَةً، وَلِكُلِّ إِقَامَةٍ ثَلَاثُونَ حَسَنَةً». (سنن ابن ماجہ: 728) ترجمہ: "جس شخص نے بارہ سال تک اذان دی، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ اس کے اذان دینے کی وجہ سے، اس کے لیے ہر روز ساٹھ نیکیاں لکھی جائيں گی اور ہر اِقامت کہنے کی وجہ سے اس کے لیے تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں"۔

 

مؤذن مُشک کے ٹیلے پر ہوگا:

قیامت کے دن تین قسم کے لوگ مشک کے ٹیلے پر ہوں گے۔ ٹیلے پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ قیامت کے دن اونچی جگہ پر ہوں گے۔ وہ اچھے حال میں ہوں گے۔ ان تین قسم کے لوگوں میں ایک "مؤذن" بھی ہوں گے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر –رضی اللہ عنہما– روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "ثَلَاثَةٌ عَلَى كُثْبَانِ المِسْكِ - أُرَاهُ قَالَ - يَوْمَ القِيَامَةِ، يَغْبِطُهُمُ الأَوَّلُونَ وَالآخِرُونَ: رَجُلٌ يُنَادِي بِالصَّلَوَاتِ الخَمْسِ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، وَرَجُلٌ يَؤُمُّ قَوْمًا وَهُمْ بِهِ رَاضُونَ، وَعَبْدٌ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ". (سنن ترمذی: 2566) ترجمہ: "تین طرح کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلے پر ہوں گے، ان پر پہلے اور پچھلے سب رشک کریں گے: (1) وہ آدمی جو روزانہ  پنج وقتہ نماز کے لیے اذان دیتا ہے، (2) وہ آدمی جو کسی قوم کا امام ہو؛ جب کہ قوم اس سے خوش ہےاور (3) وہ غلام جو  اللہ کا حق ادا کرتا ہے اور اپنے آقا کا حق ادا کرتا ہے"۔ 

 

ہمیں اذان کی تعظیم کرنی چاہیے۔ ہمیں مؤذن کا احترام کرنا چاہیے۔ مؤذن اذان کے ذریعے مسلمانوں کو ایک بڑی کامیابی کی طرف بلاتا ہے۔ مؤذن اذان کے ذریعے اللہ کے نام کا واسطہ دے کر، ہمیں مسجد میں نماز کےلیے آنے کی دعوت دیتا ہے۔ اب مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دعوت کو قبول کرے اور اپنے سارے دنیوی کار وبار سے منہ موڑ کر، مساجد کا رخ کریں؛ تاکہ اللہ ان سے راضی ہوجائے اور ان کی آخرت سنور جائے۔****